انتباہ: یہ ارٹیکل مصنف کی اجازت کے بغیر نقل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عمل قنانونً جرم ہے

 4 اپریل 2016 کو پانامہ پپیرس کے نام سے انٹرنیت پر لاکھوں دستاویزات لیک ہو گئی .کم و بیش 80 ممالک سے تعلق رکھنے والی سماجی و سیاسی شخصیات کی جائیداد کا انکشاف ہوا .3 ملکو ں کے وزیر اعظم مستعفی ہو گے ہمارے پیارے ملک پاکستان کی 400 سے زائد شخصیات بہ شمول وزیر اعظم کے خاندان کی اف شور کومپنیوں کا انکشاف ہوا بتایا گیا کے 2 کمپنییاں جن کا نام نیلسن اور نیسکول ہے مبینہ طور پر برٹش ورجن آئ لینڈ میں ہے اس انکشاف کے بعد سیاسی حال چل مچ گئی دھرنا سیاست احتساب احتساب کا شور اور الٹی میٹم پر الٹی میٹم دے جانے لگے گویا ملک کے دیگر مسائل ختم ہو گے اور بس ایک مثلا رہ گیا جس کا نام پانامہ تھا تلک شوز مے بس یہی ایک موضوع رہ گیا کئی سو پروگرام اس موضوع پر ہوے بڑے بڑے تجزیہ کاروں نے اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا جب کے ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کے پالستان کی 80% عوام کو پانامہ کے مسلے سے کوئی دل چسپی نہیں میں اس مسلے کو اپنا کالم پڑھنے والوں کے لئے تین ثابت مے تقسیم کرتا ہو تاکہ معاملہ سمجھنے اور حاصل گفتگو کرنے مے آسانی ہو 

پہلا حصّہ 4 اپریل 2016 سے 2 نومبر 2016 تاک مشتمل ہے پانامہ لیکس کے بعد وزیر اعظم نے 6 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے انکوائری کمیشن بنانے کا الان کیا اور یہ کہا کے اگر ایک پیسے کی بھی خرد برد مجھ پر یا میرے خاندان کے کسی فرد پر ثابت ہو گئی تو میں گھر جانے میں دیر نہیں کروں گا اپوزیشن کی جماعتوں نے اس پیش کش کو مسترد کرتی ہوے یہ کہا کے ہمیں حکومت کے لگے جج سے انصاف کی امید نہیں .اپوزیشنن نے سوال اٹھایا کے انکوائری کمیشن کا دائرہ اختیار کیا ہے لہٰذا احتساب کا مرحلہ شروع کرنے کی پہلی کوشش ناکام ہوئی .پھر وزیر اعظم نے 22 اپریل 2016 کو قوم سے ایک بار پھر خطاب کیا اس خطاب میں انہوں نے الزام لگانے والوں سے ثبوت طلب کئے اور معاملے کو حال کرنے کا یقین دلایا جبکہ باقی باتیں پچھلے خطاب کی دوہرائی تہام اس خطاب سے بھی اپوزیشن مطمئن نہیں ہوئی اور پانامہ کا معاملہ پارلیمنٹ مے لے جانے کا فیصلہ کیا اس بات پر حکومت بھی مان گئی اور پھر 16 مئی 2016 کو وزیر اعظم نے پارلیمنٹ مے خطاب کیا اس خطاب مے وزیر اعظم نے کچھ حد تک جائیداد کی تفصیلات دی اور ماضی مے ہونے والی زیادتی کا حوالہ دے کر معاملے سے جان چھوڑانا چاہی مگر اپوزیشن پھر ڈٹ گئی پھر یہ فیصلہ ہوا لے پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنی جاۓ جس میں 6 ارکان حکومت کے اور 6 ارکان اپوزیشن کے ہوں گے .اور یہ کمیٹی ان سفارشات کو مراتب کرے گی کہ جن کی بنیاد پر پانامہ لیکس کی تحقیقات ہوں گی .اس کمیٹی کو 15 اجلاسوں میں اپنا کام مکمل کرنے کا وقت ملّا .لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا حکومت چاہتی تھی کے پانامہ میں انے والے 400 لوگو ں کے خلاف تحقیقات وزیر اعظم کے خاندان کے ہمراہ ہوں جبکہ اپوزیشن چاہتی تھی کے تحقیقات کی ابتدا وزیر ا عظم اور ان کے خاندان سے شروع ہوں لہٰذا تحقیقات کے معملات طے کرنے کی تیسری کوشش بھی ناکام گئی .جولائی کا مہینہ آگیا اور لونگ مارچ اور احتساب احتساب اور احتجاج احتجاج کی بہاتے شروع ہو گئی پی ٹی آئ نے پورے ملک مے جلسے کئے اور حکومت کو الٹی میٹم پر التی میٹم دینا شورو کر دے اور پھر بل آخر 2 نومبر 2016 کو عمران خان نے اسلام آباد بینڈ کرنے کے احکامات دیے اور پورے ملک سے کارکنوں کو بنی گالا طلب کر لیا جس کے بعد حکومت نے رد عمل دیتے ہوے کریک ڈاؤن شروع کر دیا ملک بھر میں گرفتاریاں، چھاپہ اور تصادم شروع ہوگے پھر اچانک سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوے فریقین کو جوڈیشل کمیشن بنانے کی پیش کش کی جیسے تمام فریقین نے منظور کر لیا اور یوں احتجاج ملتوی کر دیا گیا اور اس تارہا پانامہ لیکس کا پہلا مرحلہ مکمّل ہو گیا 

پانامہ لیکس کا دوسرا مرحلہ 2 نومبر 2016 سے 20 اپریل 2017 تک جاری رہا.3نومبر 2016 کو جوڈیشل کمیشن نے کیس کی پہلی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ہوئی توقع تھی کے فیصلہ 2 ماہ میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہو جاۓ گا مگر ایسا نہ ہوا اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بینچ ٹوٹ گیا اور پھر 5 جنوری 2017 سے دوسرے بینچ نے شروع سے سماعت کا آغاز کیا جو 23 فروری2017 تک روزانہ کی بنیاد پر جاری رہی اس دوران سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر خوب الزامات لگاے تلک شوز مے ایک دوسرے کو خوب کوسا گیا بل آخر 23 فروری کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو غیر متواقع تاخیر کے بعد 20 اپریل کو سنایا گیا فیصلے میں تین دو کا فرق تھا یعنی 2 ججز نے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دیا جبکہ تین ججز نے مزید تحقیقات کا حکم دیا اور یہ تحقیقات ایک جے آئ ٹی کے ذریے ہوں گی عدالت نے نواز شریف اور ان کے دونو بیٹوں کو 13 سوالوں کا جواب دینے کا حکم دیا جو عدالت نے مراتب کئے تھے .جےآئٹی کو 60 دن میں کام مکمل کرنے کا حکوم دیا اور ہر 15 دن بعد کارکردگی رپورٹ عدالت مے جمع کرواۓ اور اس طرح پانامہ لیکس کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوا 

پانامہ لیکس کے تیسرے مرحلے کا آغاز 9 مئی 2017 کو جے آئ ٹی کے پہلے اجلاس لے ساتھ شروع ہوا قصّہ مختصر یہ کے حکومت نے جے آئ ٹی کو متناز ع بنانے کی خوب کوشش کی اور کھول کر تنقید کی بھر حال جے آئ ٹی نے کام اور مدت مکمل ہونے پر حتمی روپورٹ سپریم کورٹ میں 10 جولائی 2017 کو جمع کروا دی اسی دن یہ رپورٹ پبلک ہو گئی اس روپورٹ میں مزید انکشاف ہوے اور شریف خاندان کی مشکلات مے اضافہ ہو گیا 17جولائی سے رپورٹ پر سماعت شروع ہوئی جو 21 جولائی کو مکمل ہوئی اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا پانامہ لیکس کی وجہ سے ن لیگ میں مے پہلی دراڑ 27 جولائی 2017 کو پڑی جب چودھری نثار نے سیاست سے غیر فعال ہونے کا الان کر دیا اور اسی دن یہ الان ہوا کے سپریم کورٹ فیصلہ 28 جولائی کو سناے گی دیکھتے ہے آج کیا فیصلہ اتا ہے تین ممکنہ فیصلوں اور ان کے نتائج پر بات کرتے ہے نا اہلی کی صورت مے ن لیگ انتشار اور تقسیم کا شکار ہو جاۓ گی اور پاکستانی نظام پر یہ سوالیہ نشان اٹھے گا کے کے کیسے ایک نا اہل شخص تین بار ملک کا وزیر اعظم بن گیا ؟ اور اگر سپریم کورٹ نے پرانے کیسز ری اوپن کر دے اور کچھ نے کیسز بھی بنا دے تو بھی وزیر اعظم کا جانا نہ گزیر ہو گا کیوں کے کیسز کا سامنا کرتے ہوے سرکاری عہدہ رکھنا نہ ممکن ہو گا اور اگر نواز شریف کو قید ہو جاتی ہے تو ملک مے بعد امنی بڑھے گی کیوں کے وہ ایک سیاسی حقیقت ہے بہر حال کل کا فیصلہ تاریخی ہو گا میں دعا گو ہو کے یہ فیصلہ پاکستان کی ترقی اور استحقام کا آغاز ثابت ہوں

بھائی کا قلم میرے ہاتھ ”

میں ظلمتوں کا پارہ  

مجھےفکف اپنے عالم 

تجھےاپنی ذات کا غم 

“میں طلوع ہو رہا اور تو غروب ہو رہا 

میں ٹوئٹر پر اس نام سے ہوں: @Abbashaider73     
    ایدیٹوریلسٹ : عبّاس حیدر